Ghazal Shaikh Sohail
تیغِ قلم چلا فقط اشعار کے لیے
سیفِ زباں خموش رہی یار کے لیے
تابِ سخن نہیں ہے کچھ انوار کے لیے
لکھنے چلا ہوں حسنِ رخِ یار کے لیے
تسلیمِ جرم کرتا ہوں اظہار کے لیے
افسردہ ہو گیا ہوں بس اک پیار کے لیے
میں اک سوال کر کے پریشان ہو گیا
سارے جواب دینے لگے یار کے لیے
سودائے عشق میں تو پھر ان کا نہ کچھ بنا
بے دام بک گئے تھے جو بازار کے لیے
اسبابِ رنج و عیش ہمیں کچھ پتہ نہیں
کہتے ہیں لوگ مرتے ہیں ہم یار کے لیے
باغ و بہار خرمی و شادابی تھی مگر
برگِ خزاں رسیدہ گرا خار کے لیے
عصمت فروش کوئی نہیں اس جہان میں
لیکن چلیں ہیں بکنے کو گھر بار کے لیے
رختِ سیاہ چھا نے لگی گھر میں اس قدر
سوہیلِ خستہ اب چلو دیدار کے لیے
سوہیل شیخ
Wazn – 221 2121 1221 212
بحر – مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف